فَہَزَمُوۡہُمۡ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۟ۙ وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوۡتَ وَ اٰتٰىہُ اللّٰہُ الۡمُلۡکَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ عَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآءُ ؕ وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الۡاَرۡضُ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۲۵۱﴾

۲۵۱۔ چنانچہ اللہ کے اذن سے انہوں نے کافروں کو شکست دی اور داؤد نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے انہیں سلطنت و حکمت عطا فرمائی اور جو کچھ چاہا انہیں سکھا دیا اور اگر اللہ لوگوں میں سے بعض کا بعض کے ذریعے دفاع نہ فرماتا رہتا تو زمین میں فساد برپا ہو جاتا، لیکن اہل عالم پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔

251۔ گزشتہ آیات میں چند اہم نکات امت قرآن کے لیے قابل توجہ ہیں۔ 1۔ جہاد بالمال کو تقدیر ساز مقام حاصل ہے۔ 2۔ امتوں کی کامیابی کے لیے واحد ذریعہ جہاد ہے۔ 3۔ فرار از جنگ ایک عار و ننگ ہے۔ 4۔ قوم پر فوری اعتماد کرنے سے پہلے امتحانی مراحل سے گزارنا چاہیے۔ 5۔ طاقت کا توازن اللہ کے ہاتھ میں ہے اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ 6۔ صبر و استقلال ہو تو ایک قلیل جماعت بہت بڑی جماعت پر غالب آسکتی ہے۔

وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوۡتَ : عین لڑائی کے موقع پر حضرت داؤد علیہ السلام طالوت کے لشکر میں پہنچے جب جالوت دعوت مبارزہ دے رہا تھا۔ اس طرح ایک قلیل جمعیت نے بہت بڑے لشکر کو شکست دی۔ کیونکہ عسکری قیادت نے اپنے لشکر کو کڑی آزمائش سے گزارا پھر تعداد پر نہیں استعداد پر بھروسا کیا۔ اس کارنامے کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام ہر دلعزیز شخصیت بن گئے اور طالوت نے اپنی بیٹی ان سے بیاہ دی، بعد میں وہی اسرائیلیوں کے پیشوا ہو گئے۔

تِلۡکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ نَتۡلُوۡہَا عَلَیۡکَ بِالۡحَقِّ ؕ وَ اِنَّکَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ﴿۲۵۲﴾

۲۵۲۔ یہ ہیں اللہ کی آیات جنہیں ہم حق کے ساتھ آپ پر تلاوت کرتے ہیں اور آپ یقینا مرسلین میں سے ہیں۔

تِلۡکَ الرُّسُلُ فَضَّلۡنَا بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ۘ مِنۡہُمۡ مَّنۡ کَلَّمَ اللّٰہُ وَ رَفَعَ بَعۡضَہُمۡ دَرَجٰتٍ ؕ وَ اٰتَیۡنَا عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ الۡبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدۡنٰہُ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَا اقۡتَتَلَ الَّذِیۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُمُ الۡبَیِّنٰتُ وَ لٰکِنِ اخۡتَلَفُوۡا فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ اٰمَنَ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ کَفَرَ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَا اقۡتَتَلُوۡا ۟ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَفۡعَلُ مَا یُرِیۡدُ﴿۲۵۳﴾٪

۲۵۳۔ ان رسولوں میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے بعض ایسے ہیں جن سے اللہ ہمکلام ہوا اور اس نے ان میں سے بعض کے درجات بلند کیے اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو روشن نشانیاں عطا کیں اور ہم نے روح القدس سے ان کی تائید کی اور اگر اللہ چاہتا تو ان رسولوں کے آنے اور روشن نشانیاں دیکھ لینے کے بعد یہ لوگ آپس میں نہ لڑتے، مگر انہوں نے اختلاف کیا، پس ان میں سے بعض تو ایمان لے آئے اور بعض نے کفر اختیار کیا اور اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ باہم نہ لڑتے، مگر اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔

253۔ تمام انبیاء علیہم السلام میں اللہ کی طرف سے حجت ہونے کے ناطے کوئی فرق نہیں۔ سب ایک ہی مشن کے امین ہیں: لیکن ان کے درجات ہر لحاظ سے یکساں بھی نہیں۔ ان میں سے بعض اولوالعزم اور صاحب شریعت ہیں، بعض سے اللہ ہمکلام ہوا جو ایک خاص فضیلت ہے اور بعض کو روح القدس کی خصوصی تائید سے نوازا جو ایک منفرد درجہ ہے۔

اگر اللہ چاہتا تو اپنی طاقت کے ذریعے اختلاف رونما ہونے ہی نہ دیتا۔ مگر اس صورت میں نہ تو آزمائش ہوتی اور نہ ہی ثواب و عقاب، نہ ارتقاء، نہ کمال و نقص،بلکہ جبر و اکراہ کی ایک ساکت فضا ہوتی، جس میں کسی کو کسی پر سبقت لے جانے کی آزادی نہ ہوتی اور نہ ہی چہل پہل کا عالم ہوتا۔ اس لیے ضروری تھا کہ لوگوں کو ہدایت و ضلالت اور حق و باطل کا راستہ دکھایا جائے۔ پھر ان کی آزمائش کی جائے کہ بندہ کس طرف جاتا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ یَوۡمٌ لَّا بَیۡعٌ فِیۡہِ وَ لَا خُلَّۃٌ وَّ لَا شَفَاعَۃٌ ؕ وَ الۡکٰفِرُوۡنَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ﴿۲۵۴﴾

۲۵۴۔ اے ایمان والو! جو مال ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو قبل اس دن کے جس میں نہ تجارت کام آئے گی اور نہ دوستی کا فائدہ ہو گا اور نہ سفارش چلے گی اور ظالم وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر اختیار کیا۔

254۔ 1۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس دن تجارت، دوستی اور سفارش کی جگہ وہ مال کام آئے گا جو دنیا میں راہ خدا میں خرچ کیا گیا ہو۔ نجات کا بہترین ذریعہ مال ہے۔ اسی لیے مال کے بارے میں اسلام کا مؤقف یہ ہے کہ مال اگر رضائے الٰہی کا ذریعہ بن جائے تو بہترین خزانہ اور توشہ آخرت ہے اور اگر مال خود ایک مقصد بن جائے تو اس سے بدتر کوئی چیز نہیں ہے۔

2۔ خرچ یا انفاق فی سبیل اللّٰہ میں واجب و مستحب دونوں شامل ہیں۔ خرچ سے مراد مال کا خرچ، علم کا خرچ اور دیگر ہر قسم کے مخارج ہیں۔ اگر کسی کو جاہ و جلالت دی گئی ہو تو یہ بھی اللہ کی طرف سے عطا شدہ رزق ہے۔ اس کا انفاق یہ ہے کہ صاحبان جاہ و منصب اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے بندگان خدا کی خدمت کریں۔ کافر یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور نتیجتاً رزق خدا سے انفاق بھی نہیں کرتے۔ ان کے لیے آخرت میں کوئی مددگار نہ ہو گا۔ تجارت، دوستی اور شفاعت میں سے کوئی ایک چیز بھی ان کے کام نہ آئے گی۔ اس طرح سب سے بڑے ظالم یہی لوگ ہوں گے۔

اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَۚ اَلۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ ۬ۚ لَا تَاۡخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوۡمٌ ؕ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشۡفَعُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ ؕ یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ ۚ وَ لَا یُحِیۡطُوۡنَ بِشَیۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِہٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ ۚ وَ لَا یَـُٔوۡدُہٗ حِفۡظُہُمَا ۚ وَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡعَظِیۡمُ﴿۲۵۵﴾

۲۵۵۔ اللہ وہ (ذات) ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندہ اور سب کا نگہبان ہے، اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے سب اسی کی ملکیت ہے، کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش کر سکے؟ جو کچھ لوگوں کے روبرو اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے وہ ان سب سے واقف ہے اور وہ علم خدا میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جس قدر وہ خود چاہے، اس کی کرسی آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان دونوں کی نگہداری اس کے لیے کوئی کار گراں نہیں ہے اور وہ بلند و بالا اور عظیم ذات ہے۔

255۔ کرسی کی تفسیر بعض، علم سے اور بعض، اقتدار سے کرتے ہیں۔ لیکن اقتدار خدا علم خدا کا لازمہ ہے۔ اقتدار کل کائنات پر محیط ہے اور علم بھی۔ چنانچہ کرسی کی وسعت کے ذکر سے پہلے اللہ کے احاطۂ علمی کا بھی ذکر آتا ہے، گویا احاطۂ اقتدار، احاطۂ علمی کا لازمہ ہے۔

رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے: اعطیت آیۃ الکرسی من کنز تحت العرش و لم یؤتھا نبی کان قبلی مجھے آیۃ الکرسی عرش کے خزانوں سے عنایت کی گئی ہے اور مجھ سے پہلے کسی نبی کو یہ آیت نہیں دی گئی۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: جب سے میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنی، کسی رات کو میں نے اس آیت کی تلاوت ترک نہیں کی۔

لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ﴿۲۵۶﴾

۲۵۶۔ دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں، بتحقیق ہدایت اور ضلالت میں فرق نمایاں ہو چکا ہے، پس جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے، بتحقیق اس نے نہ ٹوٹنے والا مضبوط سہارا تھام لیا اور اللہ سب کچھ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے۔

256۔ دین کے معاملات میں اکراہ نہیں ہے۔ کیونکہ دین اسلام، دین عقل و منطق ہے اور عقل و ضمیر اس کے مخاطب ہیں۔ عقل اور دل طاقت کی زبان نہیں سمجھتے۔ جبر کا موضوع افعال و حرکات ہیں، عقائد و نظریات نہیں۔ دعوت اسلام کی مخاطب چونکہ عقل و ادراک ہے، اس لیے قرآن فرماتا ہے کہ یہ کام ہو چکا ہے۔ یعنی قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ”ہدایت اور ضلالت میں امتیاز نمایاں ہو چکا“۔ اس کے بعد قبول اور رد میں انسان آزاد ہے۔

اسلام نے ان لوگوں کے خلاف جہاد کیا جو اس آزادی کو سلب کرنے کے لیے طاقت استعمال کرتے تھے۔ لہٰذا اسلامی جہاد، سلب آزادی کے لیے نہیں تھا، جیسا کہ دشمنان اسلام نے مشہور کر رکھا ہے، بلکہ سلب آزادی کے خلاف تھا۔ چنانچہ چشم جہاں نے دیکھ لیا کہ اس آزادی کے حصول کے بعد اسلام نے ہر قسم کے مذاہب و ادیان کو برداشت کیا اور مکمل آزادی دی، حتیٰ کہ نجران کے عیسائیوں کو مسجد نبوی میں مراسم عبادت ادا کرنے کی خود رسولِ خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اجازت دی۔

اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ۬ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَوۡلِیٰٓـُٔہُمُ الطَّاغُوۡتُ ۙ یُخۡرِجُوۡنَہُمۡ مِّنَ النُّوۡرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ؕ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۲۵۷﴾٪

۲۵۷۔ اللہ ایمان والوں کا کارساز ہے، وہ انہیں تاریکی سے روشنی کی طرف نکال لاتا ہے اور کفر اختیار کرنے والوں کے سرپرست طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے تاریکی کی طرف لے جاتے ہیں، یہی جہنم والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡ حَآجَّ اِبۡرٰہٖمَ فِیۡ رَبِّہٖۤ اَنۡ اٰتٰىہُ اللّٰہُ الۡمُلۡکَ ۘ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ رَبِّیَ الَّذِیۡ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ۙ قَالَ اَنَا اُحۡیٖ وَ اُمِیۡتُ ؕ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ فَاِنَّ اللّٰہَ یَاۡتِیۡ بِالشَّمۡسِ مِنَ الۡمَشۡرِقِ فَاۡتِ بِہَا مِنَ الۡمَغۡرِبِ فَبُہِتَ الَّذِیۡ کَفَرَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۲۵۸﴾ۚ

۲۵۸۔ کیا آپ نے اس شخص کا حال نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے ان کے رب کے بارے میں اس بنا پر جھگڑا کیا کہ اللہ نے اسے اقتدار دے رکھا تھا؟ جب ابراہیم نے کہا: میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تو اس نے کہا: زندگی اور موت دینا میرے اختیار میں (بھی)ہے، ابراہیم نے کہا: اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا، یہ سن کر وہ کافر مبہوت رہ گیا اور اللہ ظالموں کی راہنمائی نہیں کرتا۔

258۔ قرآن نے اس شخص کا نام نہیں لیا جس کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام بحث و مناظرہ کر رہے تھے۔ البتہ روایات اور ”تلمود“ میں اس کا نام ”نمرود بن کنعان کلدانی“ ہے جو عراق پر حکومت کرتا تھا۔ نمرود کی قوم جن دیوتاؤں کو پوجتی تھی ان میں سب سے بڑا دیوتا سورج تھا اور نمرود کو سورج دیوتا کا مظہر مانا جاتا تھا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت توحید نمرود کے اس دیوتائی منصب پر براہ راست ضرب تھی، اس لیے نمرود نے کہا: میرا رب وہ ہے جس نے مجھے ملک و سلطنت بخشی ہے۔ جواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا: میرا رب وہ ہے جس کے قبضۂ قدرت میں موت و حیات ہے۔ نمرود نے کہا: کسی کو موت کے گھاٹ اتارنا اور زندہ چھوڑنا میرے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اس کے جواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک مشاہداتی اور محسوس دلیل یوں پیش فرمائی جو خود ان کی سطح فکر کے مطابق تھی: اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا، تو یہ محسوس پرست ششدر رہ گیا۔ تلمود اور اسلامی روایات کے مطابق یہ واقعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے سے پہلے کا ہے۔

اَوۡ کَالَّذِیۡ مَرَّ عَلٰی قَرۡیَۃٍ وَّ ہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا ۚ قَالَ اَنّٰی یُحۡیٖ ہٰذِہِ اللّٰہُ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ۚ فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ ؕ قَالَ کَمۡ لَبِثۡتَ ؕ قَالَ لَبِثۡتُ یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ ؕ قَالَ بَلۡ لَّبِثۡتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانۡظُرۡ اِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَمۡ یَتَسَنَّہۡ ۚ وَ انۡظُرۡ اِلٰی حِمَارِکَ وَ لِنَجۡعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَ انۡظُرۡ اِلَی الۡعِظَامِ کَیۡفَ نُنۡشِزُہَا ثُمَّ نَکۡسُوۡہَا لَحۡمًا ؕ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ ۙ قَالَ اَعۡلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۲۵۹﴾

۲۵۹۔ یا اس شخص کی طرح جس کا ایک ایسی بستی سے گزر ہوا جو اپنی چھتوں کے بل گری ہوئی تھی تو اس نے کہا: اللہ اس (اجڑی ہوئی آبادی کو) مرنے کے بعد کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا؟ پس اللہ نے سو (۱۰۰) برس تک اسے مردہ رکھا پھر اسے دوبارہ زندگی دی، اس سے پوچھا: بتاؤ کتنی مدت (مردہ) رہے ہو؟ اس نے کہا: ایک دن یا اس سے کم، اللہ نے فرمایا: (نہیں) بلکہ سو (۱۰۰) برس (مردہ) پڑے رہے ہو، لہٰذا ذرا اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو جو سڑی نہیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو اور ہم نے یہ اس لیے کیا ہے تاکہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے نشانی بنائیں اور پھر ان ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم انہیں کس طرح اٹھاتے ہیں پھر ان پر گوشت چڑھا دیتے ہیں، یوں جب اس پر حقیقت عیاں ہو گئی تو اس نے کہا: میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

259۔ قرآن مجید نے نہ اس نبی کا نام لیا، نہ اس بستی کا۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ یہ حضرت عزیر تھے۔دوسری روایت میں آیا ہے کہ یہ حضرت ارمیا تھے۔ اس بستی کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ اکثر کے نزدیک یہ یروشلم (بیت المقدس) ہے جسے بخت نصر بابلی نے 576 قبل مسیح میں تباہ کیا تھا۔ دوبارہ زندگی ملنے کے بعد تین باتوں کا جواب مل گیا۔ 1۔ طویل مدت گزرنے کے بعد دوبارہ زندگی دینا امر ممکن ہے۔ 2۔ گدھے کی بوسیدہ ہڈیوں پر گوشت چڑھتے دیکھ کر یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا کہ اللہ بوسیدہ ہڈیوں کو کس طرح دوبارہ زندہ کرتا ہے۔ 3۔ کھانے کی چیزیں سڑے بغیر محفوظ رہنا بتاتا ہے کہ ایک ہی ماحول میں گدھے کی تو ہڈیاں تک بوسیدہ ہو جاتی ہیں جب کہ جلدی سڑنے والی کھانے کی چیزیں سو سال تک تازہ حالت میں رہتی ہیں۔

وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ رَبِّ اَرِنِیۡ کَیۡفَ تُحۡیِ الۡمَوۡتٰی ؕ قَالَ اَوَ لَمۡ تُؤۡمِنۡ ؕ قَالَ بَلٰی وَ لٰکِنۡ لِّیَطۡمَئِنَّ قَلۡبِیۡ ؕ قَالَ فَخُذۡ اَرۡبَعَۃً مِّنَ الطَّیۡرِ فَصُرۡہُنَّ اِلَیۡکَ ثُمَّ اجۡعَلۡ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنۡہُنَّ جُزۡءًا ثُمَّ ادۡعُہُنَّ یَاۡتِیۡنَکَ سَعۡیًا ؕ وَ اعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۲۶۰﴾٪

۲۶۰۔ اور (وہ واقعہ یاد کرو) جب ابراہیم نے کہا تھا : میرے رب! مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے، فرمایا: کیا آپ ایمان نہیں رکھتے؟ کہا: ایمان تو رکھتا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ میرے دل کو اطمینان مل جائے، فرمایا: پس چار پرندوں کو پکڑ لو پھر ان کے ٹکڑے کرو پھر ان کا ایک ایک حصہ ہر پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ وہ تیزی سے آپ کے پاس چلے آئیں گے اور جان رکھو اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

260۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی درخواست حیات بعد الموت کے بارے میں نہ تھی بلکہ اس کی کیفیت کے بارے میں سوال تھا، اس لیے لفظ کَیۡفَ سے سوال ہوا جو کیفیت معلوم کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خلیل علیہ السلام سے فرمایا: اَوَ لَمۡ تُؤۡمِنۡ کیا آپ ایمان نہیں رکھتے؟ عرض کیا: ایمان رکھتا ہوں مگر میں اس راز سے آگاہی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ جہاں میری عقل کو اطمینان حاصل ہوا، چاہتا ہوں میرے حواس بھی اس میں شامل ہوں کہ جن سے میں تیرے دست قدرت کی تخلیق کا نظارہ کروں۔

اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء اور بالخصوص اولوالعزم انبیاء کو ایمان بالغیب کے ساتھ ایمان بالشہود سے بھی نوازتا ہے تاکہ یقین کی آخری منزل پر فائز ہو جائیں۔ چنانچہ ابراہیم علیہ السلام کو ملکوت السموت و الارض دکھایا تاکہ یقین کرنے والوں میں شامل ہو جائیں۔ (الانعام: 75) رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھی ”افق اعلیٰ“ اور ”افق مبین“ میں آفاق کا مشاہدہ کروایا: مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی (النجم:11) مشاہدے میں آنے والی چیزوں کو دل نے رد نہیں کیا۔