اَوۡ خَلۡقًا مِّمَّا یَکۡبُرُ فِیۡ صُدُوۡرِکُمۡ ۚ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ مَنۡ یُّعِیۡدُنَا ؕ قُلِ الَّذِیۡ فَطَرَکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ۚ فَسَیُنۡغِضُوۡنَ اِلَیۡکَ رُءُوۡسَہُمۡ وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہُوَ ؕ قُلۡ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ قَرِیۡبًا﴿۵۱﴾

۵۱۔ یا کوئی ایسی مخلوق جو تمہارے خیال میں بڑی ہو ـ(پھر بھی تمہیں اٹھایا جائے گا) پس وہ پوچھیں گے: ہمیں دوبارہ کون واپس لائے گا؟ کہدیجئے: وہی جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا، پس وہ آپ کے آگے سر ہلائیں گے اور کہیں گے: یہ کب ہو گا؟ کہدیجئے: ہو سکتا ہے وہ (وقت) قریب ہو۔ـ

یَوۡمَ یَدۡعُوۡکُمۡ فَتَسۡتَجِیۡبُوۡنَ بِحَمۡدِہٖ وَ تَظُنُّوۡنَ اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿٪۵۲﴾

۵۲۔ جس دن وہ تمہیں بلائے گا تو تم اس کی ثناء کرتے ہوئے تعمیل کرو گے اور (اس وقت)تمہارا یہ گمان ہو گا کہ تم (دنیا میں) تھوڑی دیر رہ چکے ہو۔

52۔ منکرین معاد سے خطاب ہے: منکرو! جب قیامت کے دن تمہیں قبروں سے اٹھنے کے لیے کہا جائے گا تو اس وقت تمہارے پاس سوائے حمد و ستائش الٰہی کے کوئی جواب نہ ہو گا۔ قیامت کی ابدی زندگی کو سامنے دیکھ کر دنیوی زندگی کو تم نہایت حقیر سمجھو گے۔

وَ قُلۡ لِّعِبَادِیۡ یَقُوۡلُوا الَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ یَنۡزَغُ بَیۡنَہُمۡ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ کَانَ لِلۡاِنۡسَانِ عَدُوًّا مُّبِیۡنًا﴿۵۳﴾

۵۳۔ اور میرے بندوں سے کہدیجئے: وہ بات کرو جو بہترین ہو کیونکہ شیطان ان میں فساد ڈلواتا ہے، بتحقیق شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔

53۔ خوش گفتاری کا اپنا اثر ہے۔ ایک مناسب اور برمحل جملہ انسان کی تقدیر بدل کر رکھ سکتا ہے اور ایک نامناسب جملہ ایک بڑے فساد کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ اچھی گفتگو سے محبت بڑھتی ہے اور بد کلامی سے دشمنی پیدا ہو جاتی ہے۔آیت کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان انسانوں میں بد کلامی کے ذریعے فساد کا بیج بوتا ہے۔

رَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِکُمۡ ؕ اِنۡ یَّشَاۡ یَرۡحَمۡکُمۡ اَوۡ اِنۡ یَّشَاۡ یُعَذِّبۡکُمۡ ؕ وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ وَکِیۡلًا ﴿۵۴﴾

۵۴۔ تمہارا رب تمہارے حال سے زیادہ باخبر ہے، اگر وہ چاہے تو تم پر رحم کرے اور اگر چاہے تو تمہیں عذاب دے اور (اے رسول) ہم نے آپ کو ان کا ضامن بنا کر نہیں بھیجا۔

54۔ کسی کو گمراہ اور جہنمی قرار دینا یا کسی کو جنتی قرار دینا تمہارے دائرہ علم میں نہیں ہے۔ ممکن ہے جسے تم گمراہ سمجھتے ہو اس کا انجام ایمان پر ہو اور جسے تم بڑا مومن سمجھتے ہو اس کا انجام برا ہو، لہٰذا رحم اور عذاب اللہ کے علم اور مشیت کے ساتھ مربوط ہے۔

وَ رَبُّکَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ لَقَدۡ فَضَّلۡنَا بَعۡضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰی بَعۡضٍ وَّ اٰتَیۡنَا دَاوٗدَ زَبُوۡرًا﴿۵۵﴾

۵۵۔اور(اے رسول)آپ کا رب آسمانوں اور زمین کی موجودات کو بہتر جانتا ہے اور بتحقیق ہم نے انبیاء میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور داؤد کو ہم نے زبور عطا کی ہے۔

55۔ مشرکین مکہ کے اس سوال کا جواب معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نبوت دینے کے لیے عبد اللہ کا یتیم ہی مل گیا۔ بھلا سابقہ انبیاء کہاں اور یہ یتیم کہاں۔ فرمایا: اللہ کی نگاہ پوری کائنات پر ہے، جب کسی پر اللہ کی نگاہ انتخاب پڑتی ہے تو انبیاء کو اسی بنیاد پر فضیلت دیتا ہے۔ یہاں حسن گفتار میں حضرت داود علیہ السلام کو فضیلت دی کہ ان کی تسبیح سے جمادات بھی متاثر ہوتے تھے اور پہاڑ بھی ان کے ساتھ تسبیح پڑھتے تھے۔

قُلِ ادۡعُوا الَّذِیۡنَ زَعَمۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ فَلَا یَمۡلِکُوۡنَ کَشۡفَ الضُّرِّ عَنۡکُمۡ وَ لَا تَحۡوِیۡلًا﴿۵۶﴾

۵۶۔کہدیجئے:جنہیں تم اللہ کے سوا (اپنا معبود) سمجھتے ہو انہیں پکارو، پس وہ تم سے نہ کسی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں اور نہ ـ(ہی اسے) بدل سکتے ہیں۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ یَبۡتَغُوۡنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الۡوَسِیۡلَۃَ اَیُّہُمۡ اَقۡرَبُ وَ یَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَہٗ وَ یَخَافُوۡنَ عَذَابَہٗ ؕ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحۡذُوۡرًا﴿۵۷﴾

۵۷۔ جن (معبودوں) کو یہ پکارتے ہیں وہ خود اپنے رب تک رسائی کے لیے وسیلہ تلاش کر رہے ہیں کہ ان میں کون زیادہ قریب ہو جائے اور وہ اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے خائف بھی، کیونکہ آپ کے رب کا عذاب یقینا ڈرنے کی چیز ہے۔

57۔ جن کو یہ مشرکین وسیلہ بنا کر پکارتے ہیں وہ خود قرب الہی حاصل کرنے کے لیے ایسا وسیلہ تلاش کرتے ہیں جو اللہ کے زیادہ قریب ہو۔ قرب الہی حاصل کرنے کے لیے وسیلہ تلاش کرنا درست ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کون سا وسیلہ اقرب ہے۔ جہاں عبادت اور انفاق وسیلہ ہیں وہاں جن ذوات مقدسہ نے عبادت کی رہنمائی کی ہے وہ بھی وسیلہ ہیں۔ وسیلہ اقرب وہ ہے جس کی نشاندہی خود اللہ نے کی ہو۔

وَ اِنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اِلَّا نَحۡنُ مُہۡلِکُوۡہَا قَبۡلَ یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ اَوۡ مُعَذِّبُوۡہَا عَذَابًا شَدِیۡدًا ؕ کَانَ ذٰلِکَ فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا﴿۵۸﴾

۵۸۔ اور کوئی بستی ایسی نہیں جسے ہم قیامت کے دن سے پہلے ہلاک نہ کریں یا سخت عذاب میں مبتلا نہ کریں، یہ بات کتاب (تقدیر) میں لکھی جا چکی ہے ۔

58۔ یعنی کوئی بستی ایسی نہ ہو گی جو اللہ کے عادلانہ قانون، قانون مکافات کی زد میں نہ آئے اور وہ ہلاکت یا عذاب شدید کی صورت میں وقوع پذیر ہو گا۔ ہلاکت کو عذاب کے مقابلے میں ذکر کرنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ہلاکت سے مراد طبعی موت ہے۔ وہ ہلاکت نہیں ہے جو عذاب کی صورت میں آتی ہے۔ اس لیے بعض کی یہ رائے ہے کہ ہلاکت (طبعی موت) اچھی بستیوں کے لیے ہے اور عذاب بری بستیوں کے لیے۔ لیکن ہو سکتا ہے ہلاکت اور عذاب مکافت عمل کی دو صورتیں ہوں۔

فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا : اس عالم ہستی کو اللہ تعالیٰ نے جس قانون اور دستور پر قائم کر رکھا ہے اس دستور کو لَوۡحٍ مَّحۡفُوۡظٍ ، کبھی کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ کہا ہے۔ یعنی اس کائنات میں جو کچھ رونما ہوتا ہے وہ اس قانون اور اس تقدیر کے مطابق ہوتا ہے جس پر اِس کائنات کا نظام قائم ہے، جو اللہ کے اس حتمی فیصلے سے عبارت ہے کہ ہر علت پر معلول کا ترتب ضروری ہے

وَ مَا مَنَعَنَاۤ اَنۡ نُّرۡسِلَ بِالۡاٰیٰتِ اِلَّاۤ اَنۡ کَذَّبَ بِہَا الۡاَوَّلُوۡنَ ؕ وَ اٰتَیۡنَا ثَمُوۡدَ النَّاقَۃَ مُبۡصِرَۃً فَظَلَمُوۡا بِہَا ؕ وَ مَا نُرۡسِلُ بِالۡاٰیٰتِ اِلَّا تَخۡوِیۡفًا﴿۵۹﴾

۵۹۔ اور نشانیاں بھیجنے سے ہمارے لیے کوئی مانع نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس سے پہلے کے لوگوں نے اسے جھٹلایا ہے اور (مثلاً) ثمود کو ہم نے اونٹنی کی کھلی نشانی دی تو انہوں نے اس کے ساتھ ظلم کیا اور ہم ڈرانے کے لیے ہی نشانیاں بھیجتے ہیں۔

59۔ کفار کی طرف سے تجویز شدہ معجزہ اس وقت دکھایا جاتا ہے جب ان کو تباہ کرنا مقصود ہو۔ مکہ کے کفار کی طرف سے معجزہ کا مطالبہ درحقیقت اپنی تباہی کا مطالبہ تھا، جیسا کہ قوم ثمود کو معجزہ ناقہ دکھا کر تباہ کر دیا گیا، جبکہ مشیت الٰہی یہ رہی ہے کہ ان کو سمجھنے کی مہلت دی جائے۔

وَ اِذۡ قُلۡنَا لَکَ اِنَّ رَبَّکَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ ؕ وَ مَا جَعَلۡنَا الرُّءۡیَا الَّتِیۡۤ اَرَیۡنٰکَ اِلَّا فِتۡنَۃً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَۃَ الۡمَلۡعُوۡنَۃَ فِی الۡقُرۡاٰنِ ؕ وَ نُخَوِّفُہُمۡ ۙ فَمَا یَزِیۡدُہُمۡ اِلَّا طُغۡیَانًا کَبِیۡرًا﴿٪۶۰﴾

۶۰۔ اور (اے رسول وہ وقت یاد کریں) جب ہم نے آپ سے کہا تھا کہ آپ کے رب نے لوگوں کو گھیر رکھا ہے اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے اور وہ درخت جسے قرآن میں ملعون ٹھہرایا گیا ہے اسے ہم نے صرف لوگوں کی آزمائش قرار دیا اور ہم انہیں ڈراتے ہیں مگر یہ تو ان کی بڑی سرکشی میں اضافے کا سبب بنتا جاتا ہے۔

60۔ قرآن نے جن سلسلوں کو لعنت کا نشانہ بنایا ہے وہ تین ہیں: اہل کتاب، مشرکین اور منافقین۔ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خواب میں جس ملعون سلسلہ کو مسلمانوں کے لیے آزمائش قرار دیا گیا ہے، وہ اہل کتاب اور مشرکین نہیں ہو سکتے، کیونکہ یہ دونوں اسلام کے کھلے دشمن ہیں اور جن کی دشمنی کھلی ہوئی ہے وہ آزمائش نہیں ہوتے۔آزمائش وہ لوگ ہوتے ہیں جو حق کا لبادہ اوڑھے ہوتے ہیں یعنی منافقین۔

چنانچہ احادیث میں متعدد طرق سے وارد ہوا ہے کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خواب میں دیکھا کہ بندر آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منبر پر اچھل کود کر رہے ہیں، جس کے بعد آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت کم ہنسے۔ چنانچہ حضرت سہل بن سعد، یعلی بن مرہ، سعید بن المسیب اور حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ شجرہ ملعونہ سے مراد بنی امیہ ہیں۔ (در منثور۔ تفسیر کبیر رازی۔ تفسیر قرطبی)

امامیہ طرق سے زرارہ، حمران، محمد بن مسلم، معروف بن خربوذ، جعفی، قاسم بن سلیمان، یونس بن عبد الرحمن اور عبد الرحیم قیصر نے ائمہ اہل بیت علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ شجرہ ملعونہ سے مراد بنی امیہ ہیں۔