ثُمَّ اِذَا شَآءَ اَنۡشَرَہٗ ﴿ؕ۲۲﴾
۲۲۔ پھر جب اللہ چاہے گا اسے اٹھالے گا۔
17 تا 22۔ یہ لفظ اظہار نفرت کے لیے استعمال ہوا ہے جیسے ہم مردہ باد کہتے ہیں۔ اس کے بعد کلمہ تعجب استعمال ہوا ہے کہ انسان کس قدر منکر حق ہے! ایک حقیر بوند سے پیدا ہونے والی یہ مخلوق اپنی تقدیر کی مالک نہیں ہے۔ یعنی بہت سی باتوں میں یہ بے بس ہے۔ اپنے اوصاف و خصلت، موت و حیات اور آفت و مرض وغیرہ میں مقید اور محدود ہونے کے باوجود انکار کی یہ حالت؟ جبکہ اللہ تعالیٰ نے راہ ہدایت کا حصول آسان بنا دیا۔ پھر چند روز روئے زمین پر چلنے پھرنے کے بعد اس قدر بے بس کہ زمین میں دفن ہو جاتا ہے، پھر جواب طلبی کے لیے اٹھایا جاتا ہے۔ اس قدر بے بس انسان اس قدر منکر؟