وَّ اَنَّا کُنَّا نَقۡعُدُ مِنۡہَا مَقَاعِدَ لِلسَّمۡعِ ؕ فَمَنۡ یَّسۡتَمِعِ الۡاٰنَ یَجِدۡ لَہٗ شِہَابًا رَّصَدًا ۙ﴿۹﴾

۹۔ اور یہ کہ پہلے ہم سننے کے لیے آسمان کے مقامات میں بیٹھا کرتے تھے، اب اگر کوئی سننا چاہتا ہے تو وہ ایک شعلے کو اپنی کمین میں پاتا ہے۔

8۔9 ہم پہلے آسمان کی خبریں سننے کے لیے آسمان میں بیٹھ جاتے تھے، اب شہاب ثاقب ہماری گھات میں ہیں، لہٰذا آسمان کی خبریں نہیں سن سکتے۔ اس سے واضح ہوا کہ اگر شہاب ثاقب سے مراد یہی آسمانی پتھروں والی بارش ہوتی تو لازم آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے آسمان پر ایسے شہاب ثاقب موجود نہ ہوں، جبکہ جن چیزوں کو ہم شہاب ثاقب سمجھ رہے ہیں، وہ شروع سے موجود تھے۔ لہٰذا قرآن کا اشارہ ان آسمانی پتھروں کی طرف نہیں ہے بلکہ یہ شہاب ثاقب آسمانی نجوم سے نکلنے والے شہاب ہو سکتے ہیں، جن کی حقیقت ہم پر واضح نہیں ہے۔ البتہ روایات میں آیا ہے کہ زمان جاہلیت میں بھی شہاب ہوتے تھے، لیکن رسول کریم ﷺ کی بعثت کے بعد ان شہابوں نے راستہ روکنا شروع کیا یا ان کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔ اس پر مُلِئَتۡ (بھرا ہوا) کو قرینہ کہتے ہیں۔ (زبدۃ التفاسیر)