اَمَّنۡ ہُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیۡلِ سَاجِدًا وَّ قَآئِمًا یَّحۡذَرُ الۡاٰخِرَۃَ وَ یَرۡجُوۡا رَحۡمَۃَ رَبِّہٖ ؕ قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ؕ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ٪﴿۹﴾

۹۔ (مشرک بہتر ہے) یا وہ شخص جو رات کی گھڑیوں میں سجدے اور قیام کی حالت میں عبادت کرتا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت سے امید لگائے رکھتا ہے، کہدیجئے: کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے یکساں ہو سکتے ہیں؟ بے شک نصیحت تو صرف عقل والے ہی قبول کرتے ہیں۔

9۔ کیا یہ شخص جو آسودہ ہوتے ہی کفر اختیار کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو راتوں کی تنہائی کے اوقات میں اللہ کی عبادت کرتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ خوف و رجاء اور امید و بیم میں رہتا ہے نیز آخرت کے روز حساب سے خائف اور رحمت الہٰی سے امیدیں وابستہ کیے رہتا ہے؟ اگر ان دونوں میں فرق نہ ہوتا تو علم رکھنے والوں اور علم نہ رکھنے والوں میں بھی فرق نہ ہوتا۔ کیونکہ اللہ کی بندگی راز زندگی سے آگہی سے مربوط ہے، جو راز حیات کو نہیں جانتا وہ اپنی عقل سے کام نہیں لے سکتا اور جو عقل سے کام نہیں لیتا وہ اپنی زندگی کو معقولیت نہیں دے سکتا۔

اس آیت سے عالم کی یہ تعریف سامنے آتی ہے: عالم وہ ہے جو ابتدا اور آخر شب میں عبادت کرتا ہے۔ قیامت کا خوف اور رحمت الٰہی کی امید رکھتا ہے، خواہ اصطلاح میں وہ ان پڑھ ہی کیوں نہ ہو اور جاہل وہ ہے جس میں یہ اوصاف موجود نہ ہوں، خواہ اصطلاح میں اسے سب سے بڑا علاّمہ سمجھا جاتا ہو۔