لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اُنۡذِرَ اٰبَآؤُہُمۡ فَہُمۡ غٰفِلُوۡنَ﴿۶﴾

۶۔تاکہ آپ ایک ایسی قوم کو تنبیہ کریں جس کے باپ دادا کو تنبیہ نہیں کی گئی تھی لہٰذا وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

6۔ رسول ﷺ کے معاصر لوگوں کے قریبی آبا و اجداد کو تنبیہ کرنے والا کوئی قریبی عرب رسول نہیں بھیجا گیا اور چونکہ رسول کریم ﷺ کو پوری انسانیت کی طرف بھیجا گیا ہے، اس لیے اس سے مراد پانچ سو سال کا وہ وقفہ لینا مناسب ہے جس میں کوئی رسول مبعوث نہیں ہوا۔

سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ سورہ فاطر میں فرمایا: کوئی امت ایسی نہ گزری جس میں کوئی نذیر تنبیہ کرنے والا نہ آیا ہو۔ یہاں فرمایا: مَّاۤ اُنۡذِرَ اٰبَآؤُہُمۡ ان کے باپ دادا کو تنبیہ نہیں کی گئی۔ جواب یہ ہے کہ اللہ نے یہ نہیں فرمایا : ما ارسلنا الیہم نذیراً ۔ ہم نے ان کی طرف کسی تنبیہ کرنے والے کو نہیں بھیجا کہ اعتراض درست ہو جائے، بلکہ فرمایا: مَّآ اُنْذِرَ ، ان کو تنبیہ نہیں کی گئی۔ تنبیہ نہ ہونا، نبی نہ ہونے کی وجہ سے نہیں، بلکہ ان کی تعلیمات میں تحریف اور خود لوگوں کی طرف سے رکاوٹ ڈالنے کی وجہ سے تنبیہ نہیں ہوئی، ورنہ ان کی طرف حضرت ابراہیم، اسماعیل، ہود، صالح اور شعیب علیہم السلام مبعوث ہوئے۔