کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ؕ وَ نَبۡلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَ الۡخَیۡرِ فِتۡنَۃً ؕ وَ اِلَیۡنَا تُرۡجَعُوۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ ہر نفس کو موت (کا ذائقہ) چکھنا ہے اور ہم امتحان کے طور پر برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہیں مبتلا کرتے ہیں اور تم پلٹ کر ہماری ہی طرف آؤ گے۔

35۔نفس ذات کو کہتے ہیں۔ جیسے ہم کہتے ہیں: بنفس نفیس آیا، یعنی بذات خود آیا۔ پھر ذات انسان کے لیے استعمال ہونے لگا، جیسے فرمایا: ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ ۔ (اعراف: 189) پھر روح کے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ اسی سے خون کے لیے نفس کا استعمال ہونے لگا۔ چنانچہ کہا جاتا ہے نفس سائلہ اچھلنے والا خون۔ موت، جسم کی روح سے جدائی کا نام ہے۔ خود روح کے لیے موت نہیں ہے۔

خیر کے ذریعے آزمائش، شر کے ذریعے آزمائش سے زیادہ مشکل ہوتی ہے۔ غربت شر ہے۔ اس میں ممکن ہے کہ انسان کامیاب رہے، لیکن دولت خیر ہے، اس آزمائش میں کامیاب رہنا زیادہ مشکل ہے۔ اسی طرح محکوم ہونا بہتر ہے، شاید انسان صبر کرے۔ لیکن حاکم ہونا خیر ہے، اس میں کامیابی بہت کم نظر آتی ہے۔