وَ یَوۡمَ نَبۡعَثُ فِیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیۡدًا عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ وَ جِئۡنَا بِکَ شَہِیۡدًا عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ ؕ وَ نَزَّلۡنَا عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ تِبۡیَانًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً وَّ بُشۡرٰی لِلۡمُسۡلِمِیۡنَ﴿٪۸۹﴾
۸۹۔ اور (انہیں اس دن سے آگاہ کیجیے) جس روز ہم ہر امت میں سے ایک ایک گواہ خود انہیں میں سے اٹھائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لے آئیں گے اور ہم نے آپ پر یہ کتاب ہر چیز کو بڑی وضاحت سے بیان کرنے والی اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت بنا کر نازل کی ہے۔
89۔ اللہ اپنی قدرت کاملہ کے باوجود اصول و ضوابط کے مطابق گواہ پیش فرماتا ہے۔ فِیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ سے مراد ہر جماعت اور ہر صدی ہے۔ سورئہ بقرہ کی آیت 143 کے مطابق رسول اکرم ﷺ گواہوں پر گواہ ہیں۔ اس لیے ہم اس آیت سے بھی یہی سمجھیں گے کہ ہٰۤؤُلَآءِ کا اشارہ گواہوں کی طرف ہے۔ اس طرح آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ ہم ہر امت میں سے ایک گواہ خود انہیں میں سے اٹھائیں گے اور آپ ﷺ کو ان (گواہوں) پر گواہ بنا کر لے آئیں گے اور سورہ زمر کی آیت 69 سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبروں کے علاوہ بھی گواہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا کوئی عصر گواہ اور حجت سے خالی نہ ہو گا۔ اس شاہد میں دو باتوں کا ہونا ضروری ہے: ایک یہ کہ وہ خطا نہ کرتا ہو، ورنہ بقول رازی: ”اس کے لیے بھی گواہ کی ضرورت ہو گی اور اس کا سلسلہ کہیں بھی نہ رکے گا، لہٰذا ہر زمانے میں ایسے افراد موجود ہونے چاہئیں جن کی گفتار حجت ہو۔“ (تفسیر فخر الدین رازی 30: 98) فخر الدین رازی نے امت کو معصوم از خطا اور شاہد قرار دے کر اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ جواب اس لیے درست نہیں کہ اجماع امت اعمال امت پر ناظر کیسے ہو سکتا ہے۔اس صورت میں آیت کی ترکیب یہ بنتی ہے: و یوم نبعث فی کل امۃ اجماعھا ۔ اجماع قابل بعثت نہیں ہے، لہٰذا تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہر امت میں ایسی ہستیاں موجود رہتی ہیں جو معصوم ہیں اور اعمال امت پر ناظر ہیں۔