اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ ﴿ؕ۴۵﴾
۴۵۔ (ادھر) اہل تقویٰ یقینا باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔
45۔ الۡمُتَّقِیۡنَ : (و ق ی) تقویٰ کا ترجمہ عموماً پرہیزگار، اگر فعل امر کی شکل میں آئے تو خوف کرو کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ تقویٰ کا لازمہ ضرور ہے لیکن ترجمہ نہیں ہے۔ یہ لفظ و ق ی وَقَی سے ہے، جس کے معنی محافظت اور بچانے کے ہیں۔ لہٰذا تقویٰ کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ تقویٰ کی لغوی تشریح کی روشنی میں تقویٰ کا شرعی اصطلاح میں مفہوم یہ بنتا ہے: اسلام نے زندگی کے لیے جو اصول متعین کیے ہیں، ان کے دائرے میں رہنا اور جن چیزوں کو گناہ اور پلیدی قرار دیا ہے، ان سے اپنے آپ کو بچانا۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: اللہ سے تقویٰ کرنے کی وجہ سے اللہ نے اپنے دوستوں کو اپنی حمایت میں لیا ہے اور محرمات میں مبتلا ہونے سے بچایا ہے اور خوف خدا کو دلوں میں جاگزیں کیا ہے۔