قَالَ لَا یَاۡتِیۡکُمَا طَعَامٌ تُرۡزَقٰنِہٖۤ اِلَّا نَبَّاۡتُکُمَا بِتَاۡوِیۡلِہٖ قَبۡلَ اَنۡ یَّاۡتِیَکُمَا ؕ ذٰلِکُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیۡ رَبِّیۡ ؕ اِنِّیۡ تَرَکۡتُ مِلَّۃَ قَوۡمٍ لَّا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ ہُمۡ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ کٰفِرُوۡنَ﴿۳۷﴾
۳۷۔ یوسف نے کہا: جو کھانا تم دونوں کو دیا جاتا ہے وہ ابھی آیا بھی نہ ہو گا کہ میں اس کی تعبیر تمہیں بتا دوں گا قبل اس کے کہ وہ کھانا تمہارے پاس آئے، یہ ان (تعلیمات) میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھائی ہیں، میں نے اس قوم کا مذہب ترک کر دیا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں۔
37۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے دیکھا کہ ان دو قیدیوں میں ایک قسم کا حسن ظن پیدا ہو گیا ہے، لہٰذا مزید اعتماد بڑھانے کے لیے اپنا علمی مقام و ماخذ بیان فرماتے ہیں تاکہ ایسی سازگار فضا وجود میں آ جائے جس میں وہ اپنا اصل مدعا (تبلیغ توحید) بیان کر سکیں۔ اس کے بعد کفار سے بیزاری کا اعلان فرماتے ہیں۔