قَالُوۡا یٰصٰلِحُ قَدۡ کُنۡتَ فِیۡنَا مَرۡجُوًّا قَبۡلَ ہٰذَاۤ اَتَنۡہٰنَاۤ اَنۡ نَّعۡبُدَ مَا یَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَا وَ اِنَّنَا لَفِیۡ شَکٍّ مِّمَّا تَدۡعُوۡنَاۤ اِلَیۡہِ مُرِیۡبٍ﴿۶۲﴾
۶۲۔ انہوں نے کہا : اے صالح! اس سے پہلے ہم تم سے بڑی امیدیں وابستہ رکھتے تھے، اب کیا ان معبودوں کی پوجا کرنے سے تم ہمیں روکتے ہو جن کی ہمارے باپ دادا پوجا کرتے تھے ؟ اور جس بات کی طرف تم ہمیں دعوت دے رہے ہو اس بارے میں ہمیں شبہ انگیز شک ہے ۔
62۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام رسالت پر مبعوث ہونے سے قبل اپنی قوم میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے اور قوم کو ان سے امیدیں وابستہ تھیں، جیسا کہ مکہ والے جناب رسول اکرم ﷺ کے بارے میں بھی بعثت سے پہلے اسی قسم کا مؤقف رکھتے تھے۔