وَ لَئِنۡ اَذَقۡنٰہُ نَعۡمَآءَ بَعۡدَ ضَرَّآءَ مَسَّتۡہُ لَیَقُوۡلَنَّ ذَہَبَ السَّیِّاٰتُ عَنِّیۡ ؕ اِنَّہٗ لَفَرِحٌ فَخُوۡرٌ ﴿ۙ۱۰﴾

۱۰۔ اور اگر ہم اسے تکلیفوں کے بعد نعمتوں سے نوازتے ہیں تو ضرور کہ اٹھتا ہے: سارے دکھ مجھ سے دور ہو گئے،بیشک وہ خوب خوشیاں منانے اور اکڑنے لگتا ہے

9۔10 انسان کی جلد بازی، کم ظرفی اور متلون مزاجی کی بات ہے کہ جب نعمتیں چھن جاتی ہیں تو یہ تنگ نظر انسان خیال کرتا ہے کہ اب اس نے آنا ہی نہیں اور وہ یوں مایوس ہو جاتا ہے اور جب نعمتیں وافر ہو جاتی ہیں تو خیال کرتا ہے کہ اب اس نے جانا ہی نہیں اور اس خوشی میں مغرور ہو جاتا ہے۔ اس کی کوتاہ نظر صرف حال حاضر پر لگی رہتی ہے۔ اسی کو ساری دنیا تصور کرتا ہے۔ نہ ان نعمتوں کے سرچشمہ پر نظر ہے کہ مایوس نہ ہو اور نہ ہی ان نعمتوں کے حقیقی مالک کی معرفت ہے کہ وہ ان نعمتوں کو دیکھ کر اکڑ نہ جائے۔