وَ نَجِّنَا بِرَحۡمَتِکَ مِنَ الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۸۶﴾
۸۶۔ اور اپنی رحمت سے ہمیں کافر قوم سے نجات عطا فرما۔
84 تا 86۔ توکل اور بھروسا ایمان کے بعد بہت بڑی طاقت ہے جس کے ساتھ طاغوت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اللہ پر توکل کا مطلب یہ ہے کہ اپنی طرف سے تمام امور اللہ کے سپرد کیے جائیں اور نتیجہ اسی پر چھوڑ دیا جائے۔ ظاہری علل و اسباب کو اگرچہ تمہیدی دخل ہے لیکن منزل مقصود تک جانے کے لیے توکل کی ضرورت ہے۔ یہاں توکل کے لیے دو باتوں کو بنیاد بنایا ہے: ایک یہ کہ ایمان ہو۔ ظاہر ہے کہ ایمان باللہ کے بغیر توکل علی اللّٰہ کا تصور ہو ہی نہیں سکتا۔ دوسری بات یہ کہ تسلیم کی منزل پر ہو کہ اللہ کے ہر فیصلے کو تسلیم و رضا سے لیا جائے۔ موسیٰ علیہ السلام کے جواب میں اہل ایمان نے کہا : ہم اللہ پر توکل کرتے اور دو چیزوں کی اللہ سے درخواست کرتے ہیں: پہلی درخواست یہ کہ ظالم ہمیں اپنے دین و مذہب سے منحرف کرنے کے لیے ہمیں تختہ مشق نہ بنا پائیں، دوسری یہ کہ ان کافروں سے نجات دے۔