فَمَاۤ اٰمَنَ لِمُوۡسٰۤی اِلَّا ذُرِّیَّۃٌ مِّنۡ قَوۡمِہٖ عَلٰی خَوۡفٍ مِّنۡ فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَا۠ئِہِمۡ اَنۡ یَّفۡتِنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ فِرۡعَوۡنَ لَعَالٍ فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَ اِنَّہٗ لَمِنَ الۡمُسۡرِفِیۡنَ﴿۸۳﴾

۸۳۔ چنانچہ موسیٰ پر ان کی اپنی قوم کے چند افراد کے سوا کوئی ایمان نہ لایا، فرعون اور اس کے سرداروں کے خوف کی وجہ سے کہ کہیں وہ انہیں مصیبت سے دوچار نہ کر دیں کیونکہ ملک میں فرعون کی بالادستی تھی اور وہ حد سے بڑھا ہوا تھا۔

83۔ قرآن اس خوف کے پیچھے دو اسباب بیان فرماتا ہے:ایک یہ کہ فرعون کو اس ملک میں بالادستی حاصل تھی اور دوسری بات یہ کہ وہ کسی قانون و اخلاق یا انسانی اقدار کی حدود و قیود کا قائل نہ تھا۔ ایمان کی تاریخ ہمیشہ ایسے لوگوں نے لکھی ہے جو جابروں کے ظلم و تشدد کی پرواہ کیے بغیر ایمان لے آتے ہیں۔

ذُرِّیَّۃٌ سے مراد بعض نے کمزور اور بے آسرا لیا ہے۔ ممکن ہے ذُرِّیَّۃٌ سے مراد جواں سال افراد ہوں کیونکہ کم عمر لوگ ہی ایسے معاملات میں پاک باطن ہوتے ہیں اور فرعونیت کی پرواہ کیے بغیر ایمان لے آتے اور استقامت دکھاتے ہیں۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابو جعفر ابو الاحول سے فرمایا: کیا تو بصرہ گیا تھا؟ عرض کیا جی ہاں! فرمایا: لوگوں کی ہمارے مکتب میں شمولیت کیسی تھی؟ عرض کیا :بہت کم۔ فرمایا: علیک بالأحداث فانہم اسرع الی کل خیر ۔تم نئی نسل پر توجہ دو۔ کیونکہ یہی لوگ ہر کارِ خیر کی طرف سبقت لے جاتے ہیں۔ (کافی 8 : 93)