وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّلۡمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ ۚ فَاِنۡ اُعۡطُوۡا مِنۡہَا رَضُوۡا وَ اِنۡ لَّمۡ یُعۡطَوۡا مِنۡہَاۤ اِذَا ہُمۡ یَسۡخَطُوۡنَ﴿۵۸﴾
۵۸۔ اور ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو صدقات(کی تقسیم)میں آپ کو طعنہ دیتے ہیں پھر اگر اس میں سے انہیں کچھ دے دیا جائے تو خوش ہو جاتے ہیں اور اگر اس میں سے کچھ نہ دیا جائے تو بگڑ جاتے ہیں۔
58۔ ابو سعید خدری راوی ہیں کہ تقسیم زکوٰۃ و غنیمت کے بارے میں ایک بار ذوالخویصرہ تمیمی نے آکر کہا: یا رسول اللہ ﷺ انصاف سے کام لیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا: افسوس ہے تجھ پر! میں انصاف نہ کروں تو کون انصاف کرے گا؟ جس پر حضرت عمر نے کہا:یا رسول اللہ ﷺ میں اس کی گردن مار دوں؟ فرمایا:اسے رہنے دو۔ اس کے اور بھی ساتھی ہیں۔ تم ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو اور ان کے روزوں کے مقابلے میں اپنے روزوں کو حقیر سمجھو گے۔ یہ لوگ دین سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے تیر کمان سے۔ ان کی نشانی وہ سیاہ آدمی ہے جس کی چھاتی عورتوں کی چھاتی کی طرح ہو گی یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح۔ لوگوں میں تفرقہ کے وقت یہ لوگ نمودار ہوں گے۔ ابو سعید کہتے ہیں: گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ فرمان سنا تھا اور اس کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ علی علیہ السلام نے جب (نہروان میں) ان کو قتل کیا تو میں ان کے ہمراہ تھا۔ پس اس شخص کو سامنے لایا گیا جس کے اوصاف رسول ﷺ اللہ نے بیان کیے تھے۔ (صحیح البخاری کتاب المناقب)