اِلَّا تَنۡفِرُوۡا یُعَذِّبۡکُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا ۬ۙ وَّ یَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَیۡرَکُمۡ وَ لَا تَضُرُّوۡہُ شَیۡئًا ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۳۹﴾

۳۹۔ اگر تم نہ نکلو گے تو اللہ تمہیں دردناک عذاب دے گا اور تمہاری جگہ دوسری قوم پیدا کرے گا اور تم اللہ کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکو گے اور اللہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھتا ہے۔

اس مرتبہ اس جنگ کے لیے نکلنے میں چند ایک دشواریاں پیش آرہی تھیں۔ مدینہ سے تبوک کی مسافت کافی دور تھی۔ موسم بھی سخت گرم تھا۔ فصل پکنے اور کاٹنے کا وقت بھی آگیا تھا اور پھر اس زمانے کی بڑی طاقت کے ساتھ لڑنا تھا۔ یہ ساری باتیں مسلمانوں کے ایمان کے وزن کو تولنے کے لیے کافی تھیں۔ چنانچہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ رسول کریم ﷺ کی زندگی کے اواخر میں ایمان و ایقان کی کس منزل پر فائز تھے کہ رسول کریم ﷺ کی طرف سے جہاد کا اعلان عام ہو رہا ہے لیکن لوگ زمین سے چمٹ رہے ہیں۔ ان کے لیے دنیاوی زندگی اور مال و متاع رکاب رسول ﷺ میں جہاد سے زیادہ عزیز ہے۔

39۔ یہ سنت الٰہی ہے کہ وہ قوم کبھی زندہ نہیں رہ سکتی جو اپنا دفاع کرنا نہیں جانتی اور اپنے امام کے پکارنے پر زمین سے چمٹ جاتی ہے اور اپنے رہبر کی نافرمانی کرتی ہے۔ وَ اِنۡ تَتَوَلَّوۡا یَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَیۡرَکُمۡ ۙ ثُمَّ لَا یَکُوۡنُوۡۤا اَمۡثَالَکُمۡ (محمد:38) اگر تم نے منہ موڑ لیا تو اللہ تمہاری جگہ دوسری قوم پیدا کرے گا پھر وہ تمہاری طرح نہیں ہوں گے۔ کیونکہ دشمن سے خوف کھانا اور اس کے سامنے ہتھیار ڈالنا اپنے وجود کی نفی ہے۔