وَ اَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَی النَّاسِ یَوۡمَ الۡحَجِّ الۡاَکۡبَرِ اَنَّ اللّٰہَ بَرِیۡٓءٌ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ۬ۙ وَ رَسُوۡلُہٗ ؕ فَاِنۡ تُبۡتُمۡ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّکُمۡ غَیۡرُ مُعۡجِزِی اللّٰہِ ؕ وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ۙ﴿۳﴾

۳۔اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن لوگوں کے لیے اعلان ہے کہ اللہ اور اس کا رسول بھی مشرکین سے بیزار ہے اور پس اگر تم توبہ کر لو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر منہ پھیر لو گے تو جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور کافروں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔

3۔ مشرکین مکہ نے عہد شکنی میں پہل کی، تاہم رحمت و ہدایت کا تقاضا یہی ہے کہ ان کو پھر بھی چار مہینے کی مہلت دی جائے۔

سنہ8 ہجری میں مکہ فتح ہوا۔ اس سال مسلمانوں نے پہلا حج کیا۔ سنہ 9 ہجری میں سورﮤ برائت کے ساتھ حضرت ابوبکر کو امیر الحجاج بنا کر بھیجا گیا۔ لیکن بعد میں حضرت رسول اکرم ﷺ پر جبرئیل نازل ہوئے اور اللہ کا یہ پیغام پہنچایا : الا یؤدی عنک الا انت او رجل منک اعلان برائت کی اس ذمہ داری کو یا تو آپ خود بنفس نفیس انجام دیں یا ایسا شخص جو آپ سے ہو۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اعلان برائت کی ذمے داری حضرت علی علیہ السلام کو دے دی۔ (الارشاد: 65 ) اس روایت کو کبار اصحاب نے نقل کیا ہے۔ واضح رہے کہ تبلیغ کا پہلا مرحلہ یعنی اللہ کا حکم لوگوں تک پہنچانا رسول کریم ﷺ کی ذمہ داری اور فرض منصبی ہے۔ تبلیغ کا دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ سننے والوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ دوسروں تک پہنچائیں۔ برائت از مشرکین کا اعلان پہلے مرحلے میں تھا، یعنی خود رسول اللہ ﷺ کا فرض منصبی تھا کہ لوگوں میں اعلان کریں۔ اگر کسی وجہ سے یہ نہ ہو سکتا تو یہ ذمہ داری وہ انجام دیتا جو رسول اللہ ﷺ کے بعد کے درجے کا ہو۔ یعنی اس اعلان کو یا تو اس مشن کی پہلی شخصیت انجام دے یا دوسری شخصیت۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام اس مشن کی دوسری شخصیت ثابت ہوئے۔