قُلۡ لَّاۤ اَجِدُ فِیۡ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطۡعَمُہٗۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّکُوۡنَ مَیۡتَۃً اَوۡ دَمًا مَّسۡفُوۡحًا اَوۡ لَحۡمَ خِنۡزِیۡرٍ فَاِنَّہٗ رِجۡسٌ اَوۡ فِسۡقًا اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللّٰہِ بِہٖ ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۴۵﴾
۱۴۵۔کہدیجئے:جو وحی میرے پاس آئی ہے، اس میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کھانے والے پر حرام ہو مگر یہ کہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا سور کا گوشت کیونکہ یہ ناپاک ہیں یا ناجائز ذبیحہ جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو، پس اگر کوئی مجبور ہوتا ہے (اور ان میں سے کوئی چیز کھا لیتا ہے) نہ (قانون کا) باغی ہو کر اور نہ (ہی ضرورت سے) تجاوز کا مرتکب ہو کر تو آپ کا رب یقینا بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
145۔ فَمَنِ اضۡطُرَّ ۔ کوئی مجبور ہوتا ہے: اسلامی قوانین دو قسم کے ہیں: ایک ثابت، دوسرے متحرک۔ متحرک قانون میں لچک ہوتی ہے اور حالات کے بدلنے سے قانون میں نرمی آ جاتی ہے۔ اس آیت میں یہ حکم آیا: مردار، خون اور سور کا گوشت حرام ہیں، لیکن یہ حکم مجبوری کی صورت میں اٹھ جاتا ہے۔ اسے ”قانون نفی حرج“ کہتے ہیں۔ اس قانون کے تحت ہر وہ حکم اٹھ جاتا ہے جس میں مکلف کو غیر معمولی مشقت اٹھانا پڑتی ہے۔ اس قانون کا مدرک چند قرآنی آیات ہیں۔ مثلاً مَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ (حج : 78) اللہ نے دین کے معاملے میں تمہیں کسی مشکل سے دو چار نہیں کیا۔