وَ لَوۡ اَنَّا کَتَبۡنَا عَلَیۡہِمۡ اَنِ اقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ اَوِ اخۡرُجُوۡا مِنۡ دِیَارِکُمۡ مَّا فَعَلُوۡہُ اِلَّا قَلِیۡلٌ مِّنۡہُمۡ ؕ وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ فَعَلُوۡا مَا یُوۡعَظُوۡنَ بِہٖ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ وَ اَشَدَّ تَثۡبِیۡتًا ﴿ۙ۶۶﴾

۶۶۔اور اگر ہم ان پر اپنے آپ کو ہلاک کرنا اور اپنے گھروں کو خیرباد کہنا واجب قرار دے دیتے تو ان میں سے کم لوگ ہی اس پر عمل کرتے حالانکہ اگر یہ لوگ انہیں کی جانے والی نصیحتوں پر عمل کرتے تو یہ ان کے حق میں بہتر اور ثابت قدمی کا موجب ہوتا۔

66۔ قتل و خروج سے مراد انفرادی نہیں ہے، بلکہ اپنے آپ کو ہلاک کرنے یا اپنے ہی گھر بار چھوڑ کر نکلنے کا حکم ایک اجتماعی مسئلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ہم ان پر اپنی قوم کے افراد کو قتل کرنے یا اپنے گھروں سے نکلنے کا حکم دیتے جو ان کی ذاتی خواہشات کے خلاف پر مشقت کام ہے تو یہ اس حکم کی تعمیل نہ کرتے۔ حکم صرف ان کے اپنے مفاد کے مطابق ہو تو یہ ایمان کا اظہار کرتے ہیں۔ جان دینے یا گھر بار چھوڑنے کا حکم ہو تو راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔ جیسے بنی اسرائیل کو گوسالہ پرستی کی سزا میں حکم دیا تھا کہ اپنے ہی لوگوں کو قتل کرو۔