اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ النَّصٰرٰی وَ الصّٰبِئِیۡنَ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۪ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ﴿۶۲﴾
۶۲۔ بے شک جو لوگ ایمان لا چکے ہیں اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصاریٰ اور صابئین میں سے جو کوئی اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے تو ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
62۔ آیۂ شریفہ کا ما حصل یہ بنتا ہے: اپنے زمانے کے برحق نبی اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کے بعد عمل صالح بجا لانے والا نجات پائے گا۔ صابی مذہب کے کچھ پیروکار ایران اور عراق میں پائے جاتے ہیں۔ عراق میں دجلہ و فرات کے ساحلی علاقوں میں آباد صابی اپنے آپ کو حضرت یحیٰ علیہ السلام کے پیروکار سمجھتے ہیں۔ ان کی مقدس کتاب کانزا ربا اور کنزا سدرہ میں رسول اسلام ﷺ کی آمد کی پیشگوئی بھی ہے۔ (قاموس قرآن)
شان نزول: حضرت سلمانؓ نے حضور اکرم ﷺ سے سوال کیا: میرے ان ساتھیوں کا کیا بنے گا جو اپنے دین پر عمل پیرا تھے اور عبادت گزار تھے؟ اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی۔ ابتدائے اسلام میں یہ سوال بہت سے مسلمانوں کو درپیش تھا کہ دین مسیح کے پیروکاروں کے آباء و اجداد کا انجام کیا ہو گا؟ ان کی تشفی کے لیے آیت نازل ہوئی کہ اگر وہ اپنے مذہب کے مخلص پیروکار اور عبادت گزار تھے تو نجات پائیں گے۔